Relations and Social Media

انسان کیونکہ مل کر رہتا ہے ہاں وہی معاشرتی حیوان۔ جیسے کھانا پینااور لباس اس کی ضرورت ہے بالکل اسی طرح بولنا اور سننا بھی اس انسان کی ضرورت ہے۔ انسان بولنا تو دو سال میں سیکھ جاتا ہے مگر کب بولنا ہے اور کب نہیں یہ سیکھنا قدرے مشکل ثابت ہوتا ہے، پھر اگلہ مرحلہ ہے کہ کون سا لفظ کہاں بولنا ہے۔ جی ہاں الفاظ نشتر بھی ہوتے ہیں اور مرحم بھی۔ اب جسے مرھم کی ضرورت ہو اسے لہجے سے زخمی کر دینا بھلا کہاں کی عقل مندی ہے۔ بس آج کے اس جدید دور میں ذرائع ابلاغ میں نت نئی جدتیں آرہی ہیں وہاں یہ مسئلہ بھی در پیش ہے کہ احساس کے ترجمے اب فیس بک، ٹوئیٹر اور انسٹا گرام سے سنائے جاتے ہیں۔ جن سے زیادہ تر پڑھنے والا اپنے ہی معانی اخذ کر رہا ہوتا ہے جبکہ لکھنے والے نے کس تناظر میں لکھا اور کیا لکھا وہ بات کہیں دور رہ جاتی ہے۔َِ

بس یہاں سے ہوتا ہے اس
المیے کا آغاز جو اچھے بھلے ہنستے مسکراتے چہروں کی رونق چھین لیتا ہے۔

دوست جدا، رشتے خفا اور باوفا دفعتا بے وفا ہو جاتے ہیں۔ نفرت کا بیج کاشت ہو جاتا ہے اور شک کی کھاد اس کے لیے انتہائی مفید ہے۔ یہ درخت جوں جوں بڑھتا ہے محبتوں کے سائے کم ہوتے جاتے ہیں۔ اور پھر انسان تنہائی کی دھوپ میں انا کی تپیتی ریت ہر نہ چاہتے ہوئے چلنے لگتا ہے۔ندا فاضلی نے کیا خو ب اس مضمون خلاصہ اس شعر میں لکھ مارا۔

کہتا ہے کوئی کچھ تو سمجھتا ہے کوئی کچھ
لفظوں سے جدا ہو گئے لفظوں کے معانی

ضروری نہیں ہر شخص جو ایسے موضوع پر لکھے وہ مفکر ہو، عظیم ہو اور معصوم ہو کچھ اپنی اصلاح کی خاطر بھی لکھ سکتے  ہیں۔ کسی کا یوں لکھنا اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرنے کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔میرا مقصد تو اصلاح ہے شاید جو غلطی کر کے لکھنے والا پچھتا رہا ہے، پڑھنے والا اس نقصان سے بچ جائے۔
باتیں تو بہت ہیں، مگر اس شعر کے ساتھ ختم کرتے ہیں:۔

   ہوں شکایتیں تو گلہ کر  ومجھے مسکرا کے ملا کرو

ہوں خطائیں تو کرو درگزر رنجشیں بھلا کے ملا  کرو

(محمد نوید شاکر)

تم نے سوچا ہے کبھی۔۔۔؟

تم نے سوچا ہے کبھی مجھ کو ستاتے کیوں ہو؟
دور جانا ہے تو پھر پاس ہی آتے کیوں ہو؟
ہے جو نفرت تو برملا اظہار کرو

جو محبت ہے تو پھر اس کو چھپاتے کیوں ہو؟
تم مکیں ہو یہاں کے یہ تمہارا گھر ہے
دل میں رہنا ہے تو پھر اس کو جلاتے کیوں ہو؟
محمد نوید شاکر

اٹھو ناں اے اقبال کشمیر کو دیکھو

“اٹھو ناں! اے اقبال کشمیر کو دیکھو”
وہ جس کے لیے عصمتیں برباد ہوئیں تھیں نہریں جو بہائی گئیں بیٹوں کے لہو سے
محمد علی کے ہاتھ میں منشور یہی تھا؟؟ آئین کی قانون کی تحریر کو دیکھو!
اٹھو ناں! اے اقبال کشمیر کو دیکھو
یہ دل کی میرے آہ ہے، فریاد کہاں ہے؟ گروی پڑا ہے چمن فقط برباد کہاں ہے؟؟
جکڑا ہوا ہر شخص ہے، آذاد کہاں ہے؟ تم قرض کی پھیلی ہوئی زنجیر کو دیکھو؟؟
اٹھو ناں! اے اقبال کشمیر کو دیکھو
اب حلقہ یاراں میں کوئی نرم نہیں ہے مجاہد کا لہو پہلے سا اب گرم نہیں ہے
شیرازہ ملت پہ فقط اتنا کہوں گا۔۔۔ کعبے میں صنم خانے کی تعمیر کو دیکھو
اٹھو ناں! اے اقبال کشمیر کو دیکھو
بچے جو میرے دیس کے سامان ہوس ہیں انصاف کی خاطر یہاں مظلوم ہیں پستے
زینب بے رداء ہے تو بے نور فرشتے تم ہی جو مصور ہو تو تصویر کو دیکھو
اٹھو ناں! اے اقبال کشمیر کو دیکھو
*نوید شاکر اگست 2020

شاعری کا عالمی دن2021 اور مارچ کی یہ برسات

آج شاعری کا عالمی دن ہے۔ موسم بھی موزوں ہے۔ بہار کے دن برسات اور کام سے رخصت بھی ہو تو کیا کہنے۔۔۔۔۔۔!

قدرت کی اس تمام تر رحمت کے باوجود اگر آپ مسرت محسوس نہیں کر رہے تو مسکرانے کی کوشش کریں۔ کیونکہ بسا اوقات جذبات کی دنیا بھی جمود کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس میں خوشی کا احساس بیدار کرنا ہوتا ہے۔

بچوں کے ساتھ وقت گزاریں، تصاویر والا البم نکال کر دیکھیں، اگر ڈائری لکھتے ہیں تو کوئی پرانی ڈائری نکال کر پڑھ لیں یا کوئی کتاب اٹھائیں اور چند صفحات پڑھ ڈالیں۔

میں نے نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد اردو ڈائجسٹ ماہ جنوری 2021 کا شمارہ اٹھایا اور عابدہ ظفر کی تحریر “ذرا ادھر دیکھو” پڑھنا شروع کی ایک زندگی کی طرف کھینچتی تحریر جو زندگی کی بوجھل گاڑی کو کھینچنے کا نیا عزم مہیا کرتی ہے پڑھ ڈالی۔ آپ نے ایسا کونسا کام کیا جو دل کو ہلکا پھلکا کر دے، طبیعت بحال کردے۔ بتائیے گا ضرور۔۔۔۔!

زندگی اللہ کی نعمت ہے۔ امید اس نعمت کا لطف دوبالا کرتی ہے۔

امید فیض نظم پڑھتے ہیں

چلو پھر سے مسکرائیں چلو پھر سے دل جلائیں جو گذر گئی ہیں راتیں انہیں پھر جگا کے لائیں جو بسر گئی ہیں باتیں انہیں یاد میں بلائیں چلو پھر سے مسکرائیں

کوئی حرف بے مروت کسی کنج لب سے پھوٹا وہ چھنک کے شیشہ دل تہ بام پھر سے ٹوٹا

یہ ملن کی ناملن کی یہ لگن کی اور جلن کی جو سہی ہیں وارداتیں جو گذر گئی ہیں راتیں جو بسر گئی ہیں باتیں

کوئی ان کی دھن بنائیں کوئی ان کا گیت گائیں چلو پھر سے مسکرائیں

فیض احمد فیض

پاکستانی طلباء جو 3 سالہ کمپیوٹر کا ڈپلومہ کرتے ہیں۔ شعبہ جات کیسے منتخب کریں۔

3 سالہ معاون انجینئر کمپیوٹر سائنس کا ڈپلومہ DAE CIT
طلبا کے لئے ایک نعمت ہے۔ میں نے 3 سال تک استاد کی حیثیت سے اس شعبہ میں ایک نجی کالج میں خدمات سر انجام دیں۔
الحمد للہ! آج میرے طلباء میں سے کافی لوگ نہ صرف اچھی ملازمت حاصل کر چکے ہیں بلکہ چند ایک تو خود کفیل ہیں، یعنی کہ پروگرامنگ کرکے اپنا روزگار(15000 سے 80000 تک) کما رہے ہیں۔
ایسے طالب علم میرا فخر اور غرور ہیں۔
اگر کوئی طالب علم ہمت، مستقل مزاجی اور لگن سے 3 سال محنت کرے تو انشاء اللہ روشن مستقبل آپ کا منتظر ہے۔
میں اگر سال اول، دوم یا سوئم کے کسی طالب علم کے کام آ سکوں تو مجھے خوشی ہوگی۔
پروگرامنگ، ڈیٹا بیس، ویب ڈیویلپمنٹ میں بنیادی راہ نمائی فراہم کر سکتا ہوں۔
یہ شعبہ ایسا ہے جس میں آپ محنت کے بل بوتے پر کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ اور نہ صرف اپنے کنبے کے لیے بلکہ ملک میں سرمایہ لانے کا باعث بن سکتے ہیں۔
#oneskill_everymonth#DAE(CIT)

Urdu Digest my love-قومی زبان اردو اور ہمارا رویہ

میں نے جب کچھ کمانا شروع کیا تھا تو تعلیمی قرضوں سے نجات کے بعد ، تسکین ذوق کی خاطر اردو ڈائجسٹ کا سالانہ خریدار بن گیا ۔ اردو ڈائجسٹ (ماہنامہ اردو) سے میری دل لگی اس وقت ہوئی جب میرے ہائی سکول کے استاد نے مجھے اس کا ایک downloadشمارہ پڑھنے کو دیا۔ میں بچپن سے ہی نونہال اور تعلیم و تربیت کا دلدادہ تھا۔ اردو ڈائجسٹ مجھے بہت ہی پسند آیا۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اردو ڈائجسٹ کی حیثیت اردو قاری کے لیئے وہی ہے جو کہ ریڈر کی انگریزی پڑھنے والوں کے لیے ہے۔

اس بار کرونا کی وبا کے باعث ماہ اپریل کا شمارہ کچھ دیر سے ملا، مگر میرا یہ دوست جب ملا تو بہت خوشی ہوئی۔ سر ورق سبز رنگ کو نمایاں کرتا وزیر اعظم کی تصویر لیئے بھلا لگا۔

طیب اعجاز قریشی صاحب نے آزادئ صحافت اس شعبہ سے وابستہ افراد کے مسائل کا جامع انداز میں احاطہ کیا۔  ہندو مسلم فسادات پر نظر اور دو قومی نظریہ کو تقویت دیتی تحریریں قاری کو ماضی سے روشناس کراتی ہیں۔

صالحہ محبوب کی معاشرتی کہانی ’’ حق حقدار کو ملا ‘‘   بہت سبق آموز اور معاشرتی برائیوں پر ضرب  کاری ہے۔ نعمت اللہ خان کی کی داستان حیات ہمیں اپنے سورماوں سے ملاتی ہے۔ اور ایک پیغام ہے کہ اپنے حصے کی شمع جلاتے جائیں۔

خوبصورت پرندے ہدہد پر مضمون بہت اچھا تھا۔  صاحبزادہ شیر زمان نے شاعری پر جو اشعار کا بہترین گلدستہ حوالہ جات کے ساتھ پیش کیا کیا کہنے’’ ہیروں کا محافظ‘‘ بھی بہترین کہانی تھی۔ اور بھر تہذیب و تمدن کی اہمیت کو اجاگر کرتی خرم سہیل کی تحریرڈراما ریٹنگ کی دلدل میں  بہت ہی زبردست تھی۔

المختصر مزہ آ گیا ۔  یہ سلسلہ جاری رہے اور اللہ اس میں مزید برکت دے۔ میری رائے ہے کہ اردو پڑھنے والے کو لازمی پڑھنا    چاہیے۔شمارہ اپریل ویب سائیٹ پر بھی پڑھا جا سکتا ہے ۔ ڈرامہ ارتغرل کے بارے میں میری رائے

 

Diriliş: Ertuğrul ڈرامہ ارتغرل غازی کے کردار اور ہم سب

ارتغل غازی ترکی کا مشہور ڈرامہ ہے۔ جو کہ آج کل پاکستان میں بہت مقبول ہوا ہے۔ اس پر بہت سے لوگ جہاں سوالات بھی اُٹھا رہے ہیں، وہاں بہت سے نوجوان اس نئی طرز کی پرانی کہانی سے بہت متاٗثر بھی نظر آ رہے ہیں۔ ہر  نوجوان خود کو ارتغرل ertugalسمجھتا ہے۔ ٹی وی کی ایک خرابی یہ بھی ہے کہ وہ آپ کو خیالی دنیا میں لے جاتا ہے۔ خیر بات کی طرف آتے ہیں۔

اگر کہانی متاٗثر کن ہو تو لوگ کرداروں میں خود کو تلاش کرنے لگتے ہیں، یہاں بھی ایسا ہی ہوا، جوان لڑکیاں خود کو حلیمہ سلطان سے کم نہیں سمجھتیں۔ اور تو اور والدہ کے لفظ کو بھی پذیرائی ملی ہے۔ تفریح کی تفریح اور تاریخ سے شناسائی بھی۔

یہ سب بجا ہے لیکن! میں یہاں یہ کہنا چاہوں گا کہ ارتغرل قبیلے کے سردار کا بیٹا ہے، بہادر ہے اور نڈر جنگجو بھی۔ اب اگر یہ خوبیاں آپ میں ہیں تو درست۔ مگر میں تو جوانوں سے درخواست کروں گا کہ مجھے سلطان شاہ کا دوست دبیر بھائی بننے میں بھی فخر ہوگا۔ ارے بھائی ! کہانی میں اپنا کردار پہچانو ، نہیں تو اپنی کہانی لکھو تاکہ تم اس کا مرکزی کردار ٹھرو۔

میں تو پسند کروں گا کہ ارتغرل کا وفادار دوست بن جاوں۔ دیکھو کسی کو تو ابن العربی کا کردار بھی نبھانا ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ اگر ہم طبیب کا کردار بہترین نبھا سکتے ہیں تو کیوں کسی کی جان بچا کر آج کے کسی مجاہد کے مددگار بنیں۔ کیونکہ کل جب کہانی لکھی جائے گی تو ناصر شاہ بھی نکلیں گے، ہمیں اپنے اردگرد نظر رکھنی ہوگی اور اسماٗ ْ افتالیہ کو بے نقاب کرنا ہوگا۔

ہوسکتا ہے ہم حلب کا وہ کپڑے کا تاجر ہی ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہمیں وبا سے متاثرہ لوگوں کی خدمت کی ذمہ داری ملے۔ راہ حق میں جہاں کھڑے ہو اپنے کردار کو پہچانو اور اس کے ساتھ انصاف کرنا شروع کر دو۔ اللہ اجر دے گا۔

کرداروں کی طرح ہتھیاروں کو بھی پہچانو، جس مہارت سے قائی قبیلہ کے نوجوان تیغ زنی کرتے ہیں قابل رشک ہے۔ کلہاڑا چلانا بھی بہت خوب۔ بس یہ سوچو کہ آج کلہاڑے کا نہیں میڈیا کا دور ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آج ہمیں تلوار چلانے والوں سے زیادہ عقائد کا دفاع کرنے والوں کی ضرورت ہو۔ہو سکتا ہے کہ زرہ کی جگہ اب ہمیں اپنی معیشت کو مضبوط کرنا پڑے۔ اپنے کردار سے دشمن کو شکست دینا بھی وقت کا اہم تقاضٓا ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ شاعر کہتا ہے۔

حُسن کِردار سے نُورِ مجسّم ہو جا کہ               اِبلیس بھی تُجھے دیکھے تو مسلمان ہو جائے

وقت جدید ہے اب دشمن کی چالیں بھی مزید شاطرانہ ہوچکی ہیں۔ علم و ہنر وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ خدا اور رسول کی محبت کا دامن تھام کر ہمیں جدید ہتھیاروں سے لیس ہونا ہوگا۔ ٹیکنالوجی سے خود کو لیس کرنے کے ساتھ ساتھ جوانی کو بے داغ رکھنا ہوگا تاکہ اللہ رب العزت کی نصرت نصیب ہو۔ ہمیں چوکنا ہو کر سازشوں کا سامنا کرنا ہوگا، دوست اور دشمن کو پہچاننا ہوگا۔ انشاٗ اللہ فتح حق کی ہوگی۔ اللہ کرے اس سے شہادت کی تمنا بیدار ہو، کشمیری بہنوں کے بھائیوں کی غیرت جاگ جائے۔ آزاد حسین آزاد کی تازہ غزل کے دو اشعار کے ساتھ تحریر کا اختتام کرتا ہوں۔

دوسرا عشق حل نہیں ہوتا
سب کا نعم البدل نہیں ہوتا
تُرک” کردوغلو” بھی ہوتے ہیں
ہر کوئی “ارتغل” نہیں ہوتا

کامیابی میں ماحول اور افراد کی اہمیت

  ماحول کسی بھی شخص کی کہانی ترتیب دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اسی لئے آج ہم بات کریں گے ماحول اور اس کے کسی شخص کی زندگی کے سفر میں کامیابی و ناکامی پر اثرات۔ جناب من! آپ کی مادری زبان، آپ کی بنیادی سوچ، ابتدائی مذہبی عقائد اور جسمانی ساخت سب پر ماحول کا اثر لازمی ہوتا ہے۔

ایک لمحے کو رکیں اپنے بچپن کو سوچیں ۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ افریقی بچے، عرب کے باسی اور برصغیر کے لوگ سب کا ماحول الگ الگ ہے لہذا بچے بھی الگ سوچ، عادات اور شکل و شباہت کے مالک۔

 آپ کے گردونواح میں ہونے والے واقعات، موجود افراد حتی کے موسم بھی آپ کی شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔آپ پیدا کہاں ہوئے یہ تو آپ کے اختیار میں نہیں تھا، ماں باپ عزیز و اقارب کے انتخاب میں آپ بے بس تھے، مگر زندگی آگے بڑھتی ہے تو دوستوں کا انتخاب آپ کی زندگی کے مقاصد، منزلوں اور کامیابوں پر بہت گہرا اثر ڈالتا ہے۔ لہذا دوست وہ بنائیں جن سے آپ کو حوصلہ ملے۔

اپنا حلقہٗ احباب ترتیب دیتے ہوئے اس چیز کا خیال رکھیں کے وہ لوگ آپ کے وقت کو ضائع کرنے یا غیر تعمیری سرگرمیوں  میں صرف کرنے کا باعث نہ بنیں۔

کیونکہ انسان اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے

 اپنی زندگی میں عظیم مقصد چنیں اور پھر اس کے مطابق اپنے ارد گرد کا ماحول ترتیب دیں۔ِ اگر آپ کامیاب سیاستدان بننا چاہتے ہیں تو کھلاڑیوں کیساتھ زیادہ وقت نہ گزاریں۔ کامیاب ہونا ہے تو کامیابی کی راہ پر چلنے والے پر امید لوگوں کو ہم سفر بنائیں۔ اگر فقہ کے اصول سیکھنے ہیں تو دیندار لوگوں سے ملیں گے، کسانوں سے تو کھیتی باڑی ہی سیکھی جا سکتی ہے۔ لہذا اپنے ملنے جلنے والوں   میں ان لوگوں کااضافہ کریں جن کی اور آپ کی منزل مشترک ہو۔ بس ضروری ہے کہ باہمت اور بلند حوصلہ لوگوں سے تعلقات بنائیں۔ بزدل خود تو ہارتا ہے مگر ساتھ چلنے والوں کو بھی ڈر پوک بنا دیتا ہے۔

 جیسا کہ ترکی کی مشہور ڈرامہ سیریل ارتغرل میں ایک صوفی کردار ابن العربی کہتے ہیں کہ عقاب، عقابوں کے ساتھ اور کوے کووٗں کے جھنڈ میں اچھے لگتے ہیں

ایسے ماحول اور لوگوں کیساتھ زندگی بسر کرنا جو آپ کے ارادوں اور سوچ کے مطابق نہ ہو انسان کو تھکا دیتا ہے، مایوسی چھا جاتی  ہے۔ ناموافق ماحول حوصلے توڑ دیتا ہے۔  اس سلسلے میں  مزاحیہ شاعر انور مسعود جن کی اہلیہ حال ہی میں اس دنیا سے رخصت ہوئی ہیں ان کی جوڑی کا حوالہ دینا پسند کروں گا۔ میاں بیوی دونوں ادبی ذوق رکھنے والے تھے تبھی انور صاحب نے بہت عمدہ

 مزاح تخلیق کیا۔ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کو دیکھ لیں۔ ہم سفر اگر ہم مزاج بھی ہو تو کیا ہی بات ہے۔

 مختصر یہ کہ کامیاب ہونا چاہتے ہو تو ہم خیال لوگوں کاچناو کرو اور کسی عظیم مقصد کی خاطر جیو۔
کیونکہ زندگی ایک بار ملتی ہے بار بار نہیں۔ اس شعر کے ساتھ بات ختم کروں گا ۔

اس سے پہلے کہ کسی رسم پہ وارے جائیں
کیوں نہ اک خواب کی تکمیل میں مارے جائیں

لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب وجگر۔۔۔۔ بشکریہ محمد سلمان بجنوری

اس وقت دنیا میں جس قدر تعلیمی نظام رائج ہیں، ان کومقاصد کے اعتبار سے بنیادی طور پر دو قسموں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے۔ ایک تو وہ جن کا مقصد انسان کی معاشی ضروریات کی تکمیل اور اس کی دنیوی زندگی کو آسان اور بہتر بنانا اور اس مقصد کے لیے ضروری صلاحیت انسان میں پیداکرنا ہے۔ اس نظام کے تحت دنیا کے ہر خطے اور ہر ملک میں اپنے اپنے انداز میں سرکاری اور غیر سرکاری ادارے چل رہے ہیں۔ اس وقت ایسے اداروں پر گفتگو ہمارا موضوع نہیں ہے۔

دوسرا نظام وہ ہے جس کا اصل مقصد انسان کی آخرت سنوارنا ہے، ظاہر ہے اس نظام کا تعلق صرف اسی امت سے ہوسکتا ہے جو اللہ کے آخری دین پر ایمان رکھتی ہے اور اس مقصد تک پہنچانے والا اس کا دینی تعلیمی مذہبی نظام ہوسکتا ہے۔ پھر اس مقصد کے لیے بھی دنیا کے اکثر ملکوں میں جہاں مسلمان رہتے ہیں خواہ ان کی حکومت ہو یا نہ ہو مختلف نظام تعلیم رائج ہیں؛ لیکن اگر ایک انتظامی ڈھانچہ سے مربوط ہونے کی شرط نہ لگائی جائے تو دنیا کے تمام دینی تعلیمی نظاموں میں، اپنے دائرئہ فیض کی وسعت اور اثرات کی ہمہ گیری کے اعتبار سے سب سے بڑا اور وسیع نظام، دینی مدارس کا موجودہ نظام ہے۔

اس نظام کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یورپ ہو یا امریکہ یا افریقہ، ہر براعظم کے اُن تمام ممالک میں جہاں مسلمان آباد ہیں، اس نظام کے مدارس، مصروفِ خدمت ہیں، یا دیگر مرکزی اداروں کے بلاواسطہ یا بالواسطہ فرزندوں نے قائم کیے ہیں، ایسے ادارے ان ممالک کے ہر اس شہر میں موجود ہیں، جہاں کسی بھی درجہ میں مسلمانوں کی قابلِ ذکر آبادی ہے۔ پھر ایشیا اور اس کا یہ خطہ جسے غیرمنقسم ہندوستان یا برصغیر کہاجاتا ہے، یہاں سے تو اس سلسلہ کا آغاز ہی ہوا ہے؛ اس لیے اس خطے کے تینوں ملکوں میں مدارس کی صحیح تعداد کا اندازہ لگانا ہی مشکل ہے۔

ان دونوں باتوں کے ساتھ اس بات سے انکار بھی تعصب یا نادانی کا مصداق ہوگا کہ آج بھی امت کو مدارس کے اس نظام کی شدید ضرورت ہے اور اس کی نئی نسلوں کے دین وایمان کا تحفظ انہی مدارس سے وابستہ ہے؛ بلکہ مجموعی اعتبار سے مسلمانوں کی اکثردینی ضروریات کی تکمیل انہی سے ہوتی ہے، خواہ وہ تعلیمی ودینی ضروریات ہوں یا دیگر میدانوں میں درست رہنمائی کا معاملہ ہو۔ یہی مدارس آج امت کے معتبرعلمی ورثہ اور متوارث ومتوازن فکر وعقیدہ کی حفاظت وآبیاری کا فریضہ انجام دے رہے ہیں؛ بلکہ بعض حقائق کو سامنے رکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ آج امت کو ان مدارس کی ضرورت پہلے سے بھی زیادہ ہے۔

ہے ابھی محفل ہستی کو ضرورت تیری

اس کا تقاضا ہے کہ یہ مدارس ماضی سے کہیں زیادہ احساسِ ذمہ داری اور دیانت وامانت کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنے کی فکر کریں اور صداقت، عدالت اور شجاعت کا جو سبق ان کو اپنے اسلاف سے ورثہ میں ملا ہے، اسے پھر پڑھنے اور یاد کرنے کے لیے کمربستہ ہوجائیں کہ اس کے بغیر دنیا کی امامت کا کام نہیں لیا جاتا۔

لیکن اس وقت جو حقیقی صورت حال ہے، وہ یہ ہے کہ مدارس اپنے اس کردار پر باقی تو کیا رہتے اس کردار کو زندہ کرنے کی فکر ہی رخصت ہوتی جارہی ہے اور مدارس چلانے والے طبقہ کی ایک بڑی تعداد شاید مدارس کے مقاصدِ تاسیس کا پورا شعور وادراک بھی نہیں رکھتی یا اس سلسلے میں فکرمندی سے محروم ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ معیار تعلیم گھٹ رہا ہے،اچھے افراد تیار ہونا مشکل ہورہا ہے، علمی سرگرمیاں سست روی کا شکار ہیں اور فرزندان مدارس میں فکر معاد کے بجائے کوئی اور ہی فکر پیدا ہوتی جارہی ہے؛ لیکن ان میں بھی علم وہنر اور اخلاص وعمل کی گرم بازاری پہلے جیسی نہیں نظر نہیں آرہی ہے اوراکثریت کا حال تو بلاشبہ تشویشناک ہے۔

اسی کے ساتھ ایک اور پہلو ہے، جسے نظر انداز کرنا بڑی نادانی کی بات ہوگی اور وہ یہ کہ اپنوں اور غیروں کا ایک طبقہ ان مدارس اور ان کی افادیت کا منکر؛ بلکہ ان کے وجود کا مخالف ہے۔ اپنوں میں پھر بھی نرم گرم دونوں طرح کے لوگ ہیں، جدت پسند طبقہ مدارس کی قدامت پسندی سے چڑتا ہے؛ مگر ان کے وجود کو سرے سے خارج نہیں کرتا؛ لیکن مذہب بیزار طبقہ ان کے وجود ہی کوپسند نہیں کرتا۔ اس کے باوجود کلمہ گو ہونے کی حیثیت سے ان طبقات کی جانب سے مدارس کے وجود کے لیے ایسا بڑا خطرہ سامنے نہیں ہے، اگرچہ مدارس کے اپنے منہاج پر قائم رہنے میں پھر بھی دشواریاں کھڑی ہوتی ہیں؛ لیکن غیروں کی جانب سے تو مدارس کے خلاف منظم اور منصوبہ بند مخالفت جاری ہے، عالمی طاقتیں، دینی تعلیم کے نظام کو ہی دنیا سے اکھاڑ پھینکنا چاہتی ہیں یا اس کا حلیہ اس قدر تبدیل کردینا چاہتی ہیں کہ وہ مسخ ہوکر رہ جائے۔ ان طاقتوں کی جانب سے یہ مخالفت کوئی تصوراتی یا موہوم چیز نہیں ہے؛ بلکہ واقعات وحقائق اس خطرے کی تصدیق کرتے ہیں، جن کی تفصیلات میں جانے کا یہ موقع نہیں ہے؛ البتہ یہ حالات شدت کے ساتھ اس بات کے متقاضی ہیں کہ ہم ہوش کے ناخن لیں اور اپنی اندرونی خامیوں کی بھرپور اصلاح کرکے اپنے فرزندوں میں وہ ”شرر“ پیداکریں جس کے بعد ”خیال فقر وغناء“ سے آدمی کا پیچھا چھوٹ جاتا ہے اور اسے اس بات کا یقین حاصل ہوجاتا ہے۔#

کہ جہاں میں نانِ شعیر پر ہے مدارِ قوتِ حیدری

text-align: center;”>اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ مدارس کے تمام ترکیبی عناصر (اساتذہ، انتظامیہ اور طلبہ) کا جائزہ لے کر اصلاح کی فکر کی جائے اور اس کے لیے کسی دوسرے کی نصیحت کا انتظار نہ کرکے فوری طور پر یہ کام شروع کیا جائے۔

اس سلسلے میں چند گذارشات پیش خدمت ہیں، ان گذارشات میں کوئی ترتیب یاجامعیت ملحوظ نہیں ہے؛ بلکہ صرف اصلاح کی فکر پیدا کرنے کے لیے اُس میں معاون چند باتوں کا تذکرہ بطور یاددہانی مقصود ہے۔ فان الذکریٰ تنفع الموٴمنین․

(۱) معیار تعلیم: مدارس کے بارے میں جب بھی کوئی بات کی جاتی ہے تو سب سے پہلے ان کے معیارِ تعلیم کا مسئلہ سامنے آتا ہے بالخصوص مدارس کے شان دار ماضی کے پیش نظر، جس کی کچھ جھلکیاں  تذکرہ وسوانح کی دیگر کتب میں ملتی ہیں، جن کو دیکھ کر تعلیمی معیار کے بارے میں احساس شدت احتیاط کرجاتاہے۔

معیار تعلیم بہتر بنانے کے لیے پہلی چیز اساتذہ وطلبہ کی جانب سے اسباق کی بھرپور پابندی ہے کہ کسی شرعی، طبعی یا انتظامی عذر کے بغیر سبق کا ناغہ گوارا نہ کیا جائے، پھر طلبہ کو مطالعہ کا عادی بنایاجائے، ابتدائی درجات میں سبق سننے اور ہر طالب علم سے وقتاً فوقتاً عبارت پڑھوانے کا اہتمام کیاجائے، عربی نحو وصرف کی عملی تمرین پر توجہ دی جائے، ان میں عربی کی صلاحیت پیدا کی جائے، گویا طلبہ کی استعداد سازی کا کام پوری سنجیدگی کے ساتھ کیا جائے، ان کو وقت ضائع کرنے سے بچایا جائے، نظام الاوقات کی پابندی کرائی جائے؛ بلکہ ہر طالب علم کو ذاتی نظام الاوقات بھی مرتب کرنے کی ترغیب دی جائے۔

یہ تمام باتیں پہلے عام طور پر مدارس میں پائی جاتی تھیں، اب خال خال پائی جاتی ہیں؛ اس لیے معیار میں اس درجہ فرق آگیا کہ پہلے اچانک کسی مدرسے میں جاکر کسی بھی طالب علم سے سوالات کرکے اچھا گمان قائم ہوتا تھا اور آنے والا حسنِ ظن لے کر جاتا تھا اور آج بعض مدارس میں باقاعدہ امتحان کی مجلس سے مایوس ونمناک اٹھنا پڑتا ہے، اس صورتِ حال کا فوری تدارک ضروری ہے۔

حضرات اساتذہ کرام کو بھی مطالعہ کی وسعت، پوری دیانت سے کتاب حل کرنا اور سبق پڑھانا، انتھک محنت، تدین وتقویٰ اور تزکیہٴ نفس کا اہتمام، غیرتعلیمی مشاغل سے اجتناب، طلبہ کے ساتھ خیرخواہی وشفقت جیسے اوصاف اپنے اندر پیدا کرنے ہوں گے۔ اس کے لیے نئے فضلاء اپنے اساتذہ یا بڑوں سے کسی کو اپنا نگراں بناکر ان کے مشوروں کی روشنی میں خدمت جاری رکھیں۔ ہمارے سامنے ہمارے اکابر کی تدریسی زندگی کی جو تابناک مثالیں موجود ہیں، ان سے سبق حاصل کریں۔

(۲) تربیتی نظام: مدارس میں اس پہلو سے بھی تشویشناک حد تک انحطاط آیا ہے؛ جب کہ حالات کا تقاضا یہ تھا کہ اس سلسلے میں پہلے سے زیادہ مستعدی وبیداری کا ثبوت دیا جاتا؛ اس لیے کہ بگاڑ کے اسباب اس دور میں پہلے سے کہیں زیادہ ہیں، پہلے زمانے میں طالب علم گھر سے بھی کچھ نہ کچھ تربیت لے کر آتا تھا اور مدرسہ میں آکر تو اس کو صاف ستھرا ماحول مل ہی جاتا تھا، آج انٹرنیٹ اور موبائل کے دور میں نہ صرف گھر؛ بلکہ مدرسہ کی چہاردیواری میں بھی برائیوں سے اجتناب دشوار ہوگیا ہے، ایسے حالات میں تربیت پر توجہ کی کہیں زیادہ ضرورت ہے اور اس کے لیے صرف ضابطہ کی کچھ پابندیاں کافی نہیں ہوں گی؛ بلکہ مدرسہ کے مجموعی ماحول میں صلاح وتقویٰ اور دین داری کا مزاج بنانا ہوگا اور طلبہ کی ذہن سازی اور ان کے لیے صحبتِ صالح کا ماحول فراہم کرنا ہوگا۔ نیز ان میں دینی تعلیم کی عظمت واہمیت پر بھرپور اعتماد پیدا کرنا ہوگا۔

اسی طرح، باطل افکار ونظریات کے شیوع کے اس دور میں طلبہٴ مدارس کی فکری تربیت بھی حددرجہ ضروری ہوگی۔ ان میں عقیدہ کی اہمیت اور حقیقت کا ادراک پیدا کیا جائے، صحیح عقیدہ ومسلک سے روشناس کرایا جائے، باطل افکار اور فرق ضالہ کے سلسلے میں بھرپور معلومات سے آراستہ کیا جائے، دیگر مذاہب سے بھی مناسب واقفیت پیدا کی جائے، یہ تو ہرطالب علم کی ضرورت ہے پھر منتخب طلبہ کو الگ الگ موضوعات پر اختصاصی تربیت دی جائے۔

جہاں تک انتظامی معاملات کی بات ہے ان میں بھی بڑی نزاکتیں ہیں اور ان کی بھرپور اصلاح وقت کا شدید تقاضہ ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ مدارس قائم کرنے کا محرک صرف علاقہ کی حقیقی ضرورت اور دینی تقاضہ ہو۔ اس کے بغیر کسی بھی دیگر سبب سے مدرسہ قائم کرنے کا سلسلہ فوری طور پر بند کیاجائے اور اس کا فیصلہ ہر شخص کا ضمیر ہی کرسکتا ہے ورنہ ہمارے پاس اس کی روک تھام کے لیے کوئی ضابطہ کا نظام تو نہ ہے اور نہ ہوسکتا ہے؛ اس لیے اس مسئلہ پر پوری دیانت، خداترسی اور اخلاصِ نیت سے غور کرکے فیصلہ کیاجائے۔

پھر ادارہ کے لیے لائق اساتذہ کا تقرر اور محنتی اساتذہ کی حوصلہ افزائی کا سلسلہ ہو اور استاذ کی اصل کارگذاری اس کی تعلیمی محنت ہی کو قرار دیا جائے، تنخواہوں کا معیار بہتر بنایاجائے، طلبہ کے لیے بھی قیام وطعام کا نظام درست رکھا جائے، ایسا نہ ہو کہ دارالاقامہ یا مطبخ دیکھ کر کوئی سلیقہ مند آدمی اپنے بچے کو مدرسہ میں بھیجنے کا ارادہ ہی بدل دے، صفائی ستھرائی کا بھی اہتمام کیا جائے۔

ایک بہت اہم پہلو مالیاتی معاملات کا ہے، اس میں سب سے اہم جز حسابات کی صفائی اور ان کا پوری دیانت وامانت پر مبنی ہونا ہے کہ حساب دیکھ کر کسی بھی سرکاری یا غیرسرکاری شخص کو انگلی رکھنے کا موقع نہ ملے۔ نیز فراہمی مالیات میں آبرومندانہ طرزعمل اختیار کیاجائے اور صرف اسباب ہی کو سب کچھ نہ سمجھا جائے؛ بلکہ مسبّب الاسباب پر نظر رکھی جائے۔

یہ چند گذارشات ارباب مدارس کی خدمت میں اس لیے پیش کی جارہی ہیں کہ ہمیں یقین ہے کہ ابھی قدرت کو اس نظام مدارس سے کام لینا اور اسے باقی رکھنا منظور ہے؛ اس لیے اس نظام کو ہر قسم کے خلل اور کمزوری سے پاک کرنا ہی اس کے ساتھ اصل خیرخواہی ہے جس سے ان مدارس کو نئی زندگی ملے گی اور پورے اعتماد کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اگر اہل مدارس نے اخلاص کے ساتھ ان امور پر توجہ دینے کاکام شروع کردیا اور ”ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا“ سے اپنے آپ کو بلند کرلیا تو ان مدارس کا مستقبل، ان کے ماضی کی طرح روشن اور تاب ناک ہوجائے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ

میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے